Thursday 4 February 2021

World Cancer Day

" کینسر کہانی" 

| | 

پاکستان سمیت دنیا بھر میں کینسر کا عالمی دن آج منایا جارہا ہے اگرچہ آج سے پہلے میرے لیے 4 فروری کا دن چپکے سےگزر جاتا تھا۔۔۔مگر ابو کے جانے کے بعد ابو سے جڑی "کینسر کہانی" میں روز دھراتا ہوں۔مجھے یاد ہے کے جب ہم کوئی کام جلدی میں کرتے تو ابو ہمیشہ کہتے تھے بھلا جلدی کس چیز کی ہے؟؟ پرخود "گاڈ میڈ" کو اپنے "گاڈ" کے پاس جانے کی اتنی جلدی تھی کے ایک سال کے قلیل عرصہ میں ہی چل دئیے۔ ابھی پچھلے سال کی تو بات ہے کے آج ہی کے دن ابو کا موبائل فون میرے ہاتھ میں تھااور وہ اپنی اگلی کیموتھراپی کی تیاری کر رہے تھے۔ ۔ ۔ پر وہ فون تو آج بھی اسی طرح میرے پاس ہے پر ابو نہیں ہیں ۔۔۔ 

فیصل آباد سے بہت دور ICU کے باہر بیٹھا میں اکثر سوچتا تھا کےاگر ابو فیصل آباد میں ہوتے تو شاید انکا اتنا اچھا علاج نہ ہو پاتا یا پھر کبھی نہ کبھی تو اس علاج کیلئےشہر سے باہر جانا ہی پڑتا اور  اسطرح  آہستہ آہستہ "فیصل آباد سے فاصلے" کا "فلسفہ" سمجھ میں آنے لگا تھا
بہرحال خدا کی کرنی دیکھیے کےبیماری کی تشخیص سے پہلے ابو خود سے یہاں موجود تھے اور کچھ عرصہ پہلے تک سب کچھ نارمل تھا۔۔۔پہلے پہل تو ایسا لگاکے شاید پانی اور آب و ہوا کی تبدیلی کی وجہ سے کوئی مسلئہ ہے لیکن جب معملات خراب ہونے لگے توگیسٹرولوجسٹ نے انڈوسکوپی کی اور زندگی کا سب سے بڑا دکھ آشکار ہوا کے ابو کو کینسر ہے ! ! !
اس رات نیم بے ہوش ابو کو گاڑی میں بٹھایا اور گھر کی طرف چل دئیے دل اتنی زور سے دھڑکاجیسے درد سے پھٹ جائے گا شاید اسی لیے سڑک پہ جاتا ہر شخص کسی نا کسی بیماری سے لڑتا نظر آیا۔
جب تک بیوپسی کی رپورٹ نہیں آئی ہم نے ابو کو لا علم رکھا پر ہمارے چہرے پہ سب عیاں تھا کیونکہ بہت با ہمت دکھنے والے ہم بہن بھائی والدین کے معاملے میں بہت کمزور ہیں اور بچپن سےلیکر اب تک جو الفاظ ہمارے لئے کسی آفت سے کم نہیں انکا مفہوم کچھ یوں ہے "امی ابو کی طبیعیت ٹھیک نہیں ہے" گو کسی بھی اولاد کی غرض و غایت "رَّبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّيَانِي صَغِيرًا" سے بڑھ کے کیا ہو سکتی ہے-
دوسری طرف اپنی سوانح حیات "گاڈ میڈ" مکمل کرنے والےہمارے ابو کو کیا علم تھا کےانکی زندگی سے جڑی سب سے دردناک "کینسر کہانی" ابھی باقی تھی اور درد بھی ایسا کے میری روح چھلنی ہو گئی، زندگی کا سارا کرب ایک لفظ میں سما گیا گو میری زندگی کا "ک" کرونا نہیں کینسر ہے۔
کبھی سوچا بھی نا تھاکے وہ بیماری جس کا ذکر ہمیشہ لوگوں سے سناتھا اتنی حولناک ہو گی اور اسکا علاج اس سے بھی زیادہ تکلیف دہ۔ ایک کے بعد ایک سرجری ، ہر بار ایک نیا امتحان ۔ ۔ ۔کینسر بلکل بھی ویسا نہیں جیسا فلموں اور ڈراموں میں دکھایا جاتا ہےاور نا ہی قبرستان دعا کیلئےجانا ۔ ۔ ۔ جب اپنے پیارے اللہ کو پیارے ہو جائیں۔ 
جوں جوں وقت گزرتا رہا کیموتھراپی کے اثرات بڑھتے گئے اورابو جیسے باذوق اور مصروف انسان نے ہر قسم کی "پڑھائی لکھائی" چھوڑ دی، نا اخبار پڑھنا نا ٹی وی دیکھنا بس اپنے کمرے میں رب کی رضا پہ راضی۔ابو کی یہی ہمت ہمارا کل اثاثہ اورحوصلہ ہے لیکن جب جب کوئی اور ہمیں حوصلہ دینے کی کوشش کرتا ہے تو نجانے کیوں آنکھیں نم ہو جاتی ہیں کے جس کو لگی ہے وہی جانے ۔
کیموتھراپی کے طویل سیشنز ہوں، ان گنت میڈیکل ٹیسٹ ہوں یا پھرتکلیف دہ سرجریز، ہم ہر ٹریٹمنٹ کے بعد ابو کی آنکھیں کھلنے کا انتظار کرتے اوراس دوران زندگی بھر کی ہربات ہماری آنکھوں کے سامنے آجاتی کہ امی ابو نے ہم چھ بہن بھائیوں کو کتنے مان پیار سے پالا ۔ اسی لیے ہم بہن بھائی دنیا کے کسی کونے میں تھے،ہمارا "ٹائم زون" ابو کی "ٹائم روٹین" سے جڑ چکا تھا۔حتاکہ جب ابو کا آخری وقت آیا تودور بسی اولاد کی بے وقت فون کالز بھی آنے لگیں ۔ ۔ ۔گو دل کو دل سے راہ ہوتی ہے پر اب تو ایک عرصہ ہوا ابو سے بات نہیں ہوئی۔ابو آپ تو چلے گئے پر ہماری زندگیوں سے جڑی   یہ"کینسر کہانی" ہمیں روز رولا دیتی ہے۔ ۔ ۔آپ سب سے التماس

ہے کہ میرے بابا  "مرحوم ڈاکٹرعبدالستارمنعم" کی بخشش کیلیےاول و آخر درود شریف کے ساتھ سورۃ فاتحہ اور تین مرتبہ سورۃ اخلاص پڑھ کےدعا کر دیجئے۔(جَزَاکَ اللَّهُ خَيْرًا)

No comments:

Post a Comment

میرا پسندیدہ فکشنل کردار

(The Happy Prince)🤴 میرا پسندیدہ فکشنل کردار زندگی بھر ہم بے شمار "حقیقی" اور "فکشنل" کرداروں کا سامنا کرتے ہیں,کچھ ان...