Friday 28 January 2022

میرا پسندیدہ فکشنل کردار

(The Happy Prince)🤴
میرا پسندیدہ فکشنل کردار

زندگی بھر ہم بے شمار "حقیقی" اور "فکشنل" کرداروں کا سامنا کرتے ہیں,کچھ انسان آپ کو "فکشنل" دنیا میں لے جاتے ہیں اور کبھی کبھی "فکشنل" کردار آپ کی زندگی کا "فنکشنل" کردار بن جاتا ہے۔
واصف علی واصف فرما تے ہیں:
" ایک انسان دوسرے کے پاس سے خاموشی سے گزر جائے تو بھی اپنی تاثیر چھوڑ جاتا ہے ۔ ایسے بھی ہوتا ہے کہ انسان صرف نظر ملا کر دوسرے انسان کے مسائل حل کر دے ، اسے باشعور کر دے ، اسے عارف بنا دے ۔اپنے قریب آنے والے اور پاس سے گزرنے والے اور نگاہوں میں رہنے والے انسانوں سے انسان بہت کچھ حاصل کرتا ہے ، مگر خاموشی کے ساتھ "

تو چاہے  وہ انسان کا کردار اصلی  ہو یا افسانوی، ہرکسی کو مختلف دکھائی دیتا ہے جیسے حافظ شیرازی صاحب نے  فرمایا ہے:-
"فکرِ ہر کس بقدرِ ہمّتِ اوست"
(ہر کسی کی فکر اسکی ہمت کے اندازے کے مطابق ہوتی ہے)

کوشش ہے کے اس تحریر کے توسط سے اپنا اور اپنے پسندیدہ فکشنل کردار کا تعارف آپ سے کروا سکوں جس کو پہلی دفعہ میں نے سکول میں The Happy Prince ( دی ہیپی پرنس) کے نام سے جانا تھا اور رفتہ رفتہ خود اس کردار میں ڈھل گیا۔
ویسے  تو اپنی واجِبی صُورَت اور واجب الادا واجبات کی بناء پر میں اپنے آپ کو پرنس تو بالکل بھی نہیں کہہ سکتا البتہ اپنی خوشدلی کی وجہ سے "ہیپی" ضرور کہلا سکتا ہوں۔

توشخصیت ہیپی پرنس کی ہو یا میری ، ہم دونوں کی فکر  اور فقر ایک سے ہیں میں "شہزادہ" نا سہی اپنے شہر سے پیار کرنے والا "شہر زاد" ہی سہی ۔
جی ہاں ! ایک ایسا ہیپی پرنس. . .
جو میری طرح روتا رہتا ہے، آسکر وائلڈ کا تو پتا نہیں پر جب سے دی ہیپی پرنس کو پڑھا ہے روز روتا ہوں روز لکھتا ہوں۔۔۔۔کبھی رو رو کے لکھتا ہوں اور کبھی لکھ لکھ کے روتا ہوں.

اس کی طرح ہر ایک سے ہمدردی کرتے کرتے اپنا سب کچھ لٹا دینےوالا۔
جیسے "ہ" سے "ہیپی" ہوتا ہے ویسے ہی "ہ" سے  ہمدردی۔۔۔پتا نہیں کون سی "ہ" اٹکی ہے میری زندگی میں ہردم ہر پل ہر ایک کے ساتھ  ہمدردی کرنا ہر حال میں۔کیونکہ بعض عادتیں روح میں رچی ہوتی ہیں۔ ۔ ۔میں چاہ کر بھی ان کو بدل نہیں سکتا۔
کہانی میں ہیپی پرنس بے بسی میں کہتا ہے کہ:-
"میرے پاوں تو سنگ مرمر میں قید ہیں، میں حرکت نہیں کر سکتا"
بے بسی! ! ! ہائے میری طرح اسکی بے بسی جو شہر میں "نصب" ضرور ہے پر "نصیب" میرے جیسا کے اپنے شہر کو صرف دور سے ہی دیکھ سکتا ہے کیونکہ میں بھی ایک عرصہ سے  کسی اور دنیا میں قید ہوں،  پر " دنیا" گھومنے کے باوجود میری "دنیا" ایک "شہر" ہےجسے لوگ فیصل آباد کے نام سے جانتے ہیں۔
دی ہیپی پرنس کی طرح میں بھی اپنے شہر والوں کے سب غم مٹانے کا خواہش مند کیونکہ شہر میں کوئی اداس ہو تو خوش کیسے رہا جا سکتا ہے ؟
دن گزرتے گئے اور پرنس نےدوسروں کی خوشی کی خاطر اپنا سب کچھ گنوا دیا ایک کے بعد ایک چیز ۔۔۔غرض کے اس نے اپنےدو نینوں کے نگینے بھی لٹا دیئے ۔ اُدھر پرنس اندھا ہوجاتا ہے اور اِدھر دنیا کی چمک نے  مجھے اندھا کر دیا ہے یا شاید صبح وطن کی آس میں میری آنکھیں پتھرا سی گئی ہیں۔
  ایک بار شہزادہ اپنے اچھے وقت کو یاد کرتےہوئے کہتا ہے:-
"میں ایسے محل میں رہتا تھا جہاں غموں کا داخلہ ممنوع تھا"
لیکن وہ نہیں جانتا تھا کے غم کی برف باری شروع ہونے والی ہے۔ ۔ ۔اکثر کہانیوں میں پڑھا تھا کے  کسی کی "جان" پرندے میں بھی ہوسکتی ہے پر دی ہیپی پرنس کو پڑھ کے یقین سا آگیا اور ایک صدی پرانے کردار دی ہیپی پرنس کا یہ  دکھ مجھ سے زیادہ کون سمجھ سکتا ہے کیونکہ جیسے اس نے اپنے سب سے قریبی دوست(Swallow) کو اپنے سامنے دنیا سے جاتے دیکھا بالکل اسی طرح میں نے بھی اپنے سب سے قریبی(Fellow) یعنی اپنے والد صاحب کو اپنے سامنے کینسر سے جنگ ہارتے دیکھا۔۔۔۔ کہانی  آگے بڑھتی ہے اور شہزادہ اپنے دوست سے بار بار کہتا ہے " کیا تم کچھ اور دیر میرے ساتھ نہیں رہ سکتے؟ "
جی ہاں میں بھی بلک بلک کے ابو جان کو  یہی کہتا رہ گیا پر "گاڈ میڈ" کو گاڈ کے پاس جانا ہی تھا۔ اس حادثے سے شہزادے کا دل ٹوٹا اور میرا پورا وجودپھر آہستہ آہستہ ہم دونوں کے سارے رنگ اترتے چلے گئے ۔ ۔ ۔

وہ گیا تو ساتھ ہی لے گیا، سبھی رنگ اُتار کے شہر کا،
کوئی شخص تھا میرے شہر میں، کسی دُور پار کے شہر کا۔

پھر جیسے دنیا اس خوش باش شہزادے کو بھلا دیتی ہے اور منظر سے غائب کر دیتی ہے بالکل اسی طرح ایک دن میری کہانی بھی اختتام پذیر ہو گی اور پھر میری جگہ دنیا میں کوئی اور ہو گا جو مجھ سے بہتر ہو گا۔

پر کہانی ایسے ختم نہیں ہوتی، اس کردار کو ابھی امر ہونا ہے۔۔۔۔ کہانی  کے اختتام پر شہزادے کا دل اس کے عزیز "پرندے" کے پاس پہنچ جاتا ہے اور یہ جذبہ رب کے نزدیک خاص مقام حاصل کر لیتا ہے بالکل جیسے اگلی دنیا میں میری "روح کا پرندہ" یعنی میرے والد صاحب میرے پاس پہنچا دئیے جائیں گے رب تعالٰی کے ایک محبوب تحفےکے طور پر انشاءاللہ !

Saturday 1 January 2022

"2022"

"2022 اور میری تصوّراتی دنیا"

میں بنیادی طور پر ایک تصوّراتی روح ہوں کیونکہ میں ہر کام کرنے سے پہلے کچھ نہ کچھ تصوّر ضرور کرتا ہوں پھر چاہے ویسا ہو یا نا ہو پر مجھے تصوّر کرنے اور تصوّراتی دنیا بنانے میں بہت لطف ملتا ہے.اسی لئے میرے قریبی احباب بھی اکثر میرے تصوّرات میں کھو جاتے ہیں اور میرے "خیال" کا خیال رکھتے ہیں۔
روزانہ ہزاروں تصوراتی دنیائیں میرے گمان میں ہوتی ہیں اور ہزاروں تصور میرے اردگرد جیسا کہ ۔ ۔ ۔

- سامنے بیٹھے ماسک لگائے شخص کا اپنے ذہہن میں تصوّراتی چہرہ سوچنا اور ماسک اترنے پر اپنی ہی ہنسی کو ماسک میں چھپانا۔

-اکثر بیڈ پر لیٹے اپنے اوپر پنکھا گرنے کا تصوّر ہونے لگنا۔

- بیٹھے بٹھائے انعامی بانڈ یا لاٹری لگنے کا تصوّراتی لالچ۔

- کسی کی کہانی سن کے تصور کرنا کہ اگر میں تمہاری جگہ ہوتا تو یہ کرتا وہ کر دیتا۔

- ہر بار کسی سے بحث میں مات کھا کے تصور کرنا کے اگلی بار ایسا جواب دوں گا کے بس۔۔۔کیونکہ موقعے پر آج تک صحیح بات یا حوالہ ذہن میں آ ہی نا سکا۔

- میٹنگ کے دوران کسی پر اپنی گرم گرم چائے پھیکنے کا عجوبہ خیز تصور کہ حد سے حد کیا ہو جائے گا۔

-تصوّر میں ہی کئی ٹائم ٹیبلز بنانا اوران پر عمل کرنا۔

-اکثر واقعات کو دیکھ کےانجانا تصوّر ہونا کہ ایسا تو پہلے ہو چکا ہے۔

- آئینے کے سامنے کھڑے ہو کے اپنی جوانی کا تصور اور کبھی اپنے آپ کو لمبے بالوں میں دیکھنے کا تصور۔

- ہر جمعہ کی نماز کے بعد باقاعدگی سے مسجد آنے کا ارادہ و تصوّر، اور گناہ چھوڑنے کا تصوّر۔

-ویک ڈیز میں ویکینڈ کا تصور۔

- ٹی وی پر ریلیٹی شو دیکھتے ہوئے تصورکرنا کے اگر میں وہاں ہوتا تو میرے لیئے یہ کام بہت آسان ہوتا۔

- وہ علی سیٹھی کی طرح سریلا ہونے کا تصوّر۔

- ویڈیو گیم ہارنے کے بعد اگلی دفعہ نئے طریقے آزمانے کا تصوّر۔

- وقت کے دھارے سے مبرا اپنے بچپن اور بڑھاپے کا تصور۔

- کبھی سفر سے پہلے منزل کا تصور۔

۔ We are Seven والی بچی کی طرح تصور کرنا کہ جانے والے میرے پاس ہی ہیں گو کبھی ہجر اور کبھی وصال کا تصوّر۔

- تصوّر میں بچھڑے ہووں کا نینوں میں آنا اور آنسو بن کے نکل جانا۔

- میرے بعد دنیا ایسی ہی ہو گی اس حقیقت کا تصوّر۔

- سکول میں جلدی سے بڑے ہو جانے کا تصور اور آفس میں بیٹھ کے واپس بچپن میں جانے کا تصور۔ ۔ ۔کاش ! ! !

- امتحان کے دنوں میں خواب میں بھی پیپرز دینے کا تصور ۔

- وقت پڑنے پہ فر فر انگلش بولنے کا تصوّر۔

- بڑھےہوئے وزن کو گھٹانے کا تصوّر۔

-کبھی ماضی کے دھندلکوں میں خاک چھانتے تصوّر۔

- ہر رات، دور بسے اپنوں پر تصوّر میں پڑھ پڑھ کے پھونک مارنا۔

- اور کبھی پردیس میں آدھی رات کو آنکھ کھلنے پر اپنے گھر پر ہونے کا تصوّر کہ تصوّر سرحدیں کب دیکھتا ہے !

- کسی فقیر کو دیکھ کے اسکی جگہ اپنے آپ کو تصوّر کرنے کا تصوّر۔

- نصرت فتح علی خاں صاحب کو سنتے سنتے شاعر کے کرب کا تصوّر۔

اور ان سب کے علاوہ اور بھی بہت کچھ ۔ ۔ ۔میں اپنی تصوّراتی دنیا کے بارے میں زیادہ لکھ یا کہہ نہیں سکتا ۔۔۔۔۔بس تصوّر کرسکتا ہوں۔ کتنا وقت بیت گیا پر میرے لئے کچھ بھی نہیں بدلا حقیقی دنیا بازیچہ اطفال کی مانند لگتی ہے
کیونکہ۔ ۔ ۔
مجھے یاد ہے کہ حقیقی زمان و مکان کے دقیق مسائل تب سے حل ہونے لگے جب پہلی بار سکول میں امیر خسرو صاحب کی یہ نعت سنی۔ ۔ ۔

نمی دانم چہ منزل بود شب جائے کہ من بودم
بہر سو رقص بسمل بود شب جائے کہ من بودم
( مجھے معلوم نہیں وہ کیسی جگہ تھی جہاں میں کل رات تھا۔ ۔ ۔پر طرف رقص بسمل ہو رہا تھا جہاں میں کل رات تھا)

لڑکپن میں امیر خسرو کی تصوّراتی دنیا کچھ خاص سمجھ تو نا آئی پر آہستہ آہستہ میری تصوّراتی دنیا خاص ہوتی گئی، کبھی آنکھیں موندے اور کبھی آنکھیں نم کئے۔ ۔ ۔
تصوّر ۔ ۔ ۔
ہائے وہ تصوّراتی دنیا۔ ۔ ۔
آہ ! وہ عشق ۔ ۔ ۔
ہائے وہ بے انت تصوّر۔ ۔ ۔
وہ خاص تصوّراتی دنیا ۔ ۔ ۔
وہ اوقات سے بڑھ کر تصوّراتی دنیا۔ ۔ ۔ ہائے ! ! !
جس میں ڈوب کر بے خودی طاری ہو جائے اور روح اور جسم کا ایسا رشتہ بنے جو حقیقی دنیا سے دور لے جائے اور مجھ جیسے قریب المرگ کو زندہ کر دے ۔ اب میری تصوّراتی دنیا کا یہ عالم ہے کہ ۔ ۔ ۔

خیالِ یار ﷺ وچ میں مست رہنا ہاں دنِ راتی۔
میرے دل وچ سجن وسدا میرے دیدے ٹھرے رہندے !

(اشکبار : جنید)
#میری_تصوراتی_دنیا

Thursday 4 February 2021

World Cancer Day

" کینسر کہانی" 

| | 

پاکستان سمیت دنیا بھر میں کینسر کا عالمی دن آج منایا جارہا ہے اگرچہ آج سے پہلے میرے لیے 4 فروری کا دن چپکے سےگزر جاتا تھا۔۔۔مگر ابو کے جانے کے بعد ابو سے جڑی "کینسر کہانی" میں روز دھراتا ہوں۔مجھے یاد ہے کے جب ہم کوئی کام جلدی میں کرتے تو ابو ہمیشہ کہتے تھے بھلا جلدی کس چیز کی ہے؟؟ پرخود "گاڈ میڈ" کو اپنے "گاڈ" کے پاس جانے کی اتنی جلدی تھی کے ایک سال کے قلیل عرصہ میں ہی چل دئیے۔ ابھی پچھلے سال کی تو بات ہے کے آج ہی کے دن ابو کا موبائل فون میرے ہاتھ میں تھااور وہ اپنی اگلی کیموتھراپی کی تیاری کر رہے تھے۔ ۔ ۔ پر وہ فون تو آج بھی اسی طرح میرے پاس ہے پر ابو نہیں ہیں ۔۔۔ 

فیصل آباد سے بہت دور ICU کے باہر بیٹھا میں اکثر سوچتا تھا کےاگر ابو فیصل آباد میں ہوتے تو شاید انکا اتنا اچھا علاج نہ ہو پاتا یا پھر کبھی نہ کبھی تو اس علاج کیلئےشہر سے باہر جانا ہی پڑتا اور  اسطرح  آہستہ آہستہ "فیصل آباد سے فاصلے" کا "فلسفہ" سمجھ میں آنے لگا تھا
بہرحال خدا کی کرنی دیکھیے کےبیماری کی تشخیص سے پہلے ابو خود سے یہاں موجود تھے اور کچھ عرصہ پہلے تک سب کچھ نارمل تھا۔۔۔پہلے پہل تو ایسا لگاکے شاید پانی اور آب و ہوا کی تبدیلی کی وجہ سے کوئی مسلئہ ہے لیکن جب معملات خراب ہونے لگے توگیسٹرولوجسٹ نے انڈوسکوپی کی اور زندگی کا سب سے بڑا دکھ آشکار ہوا کے ابو کو کینسر ہے ! ! !
اس رات نیم بے ہوش ابو کو گاڑی میں بٹھایا اور گھر کی طرف چل دئیے دل اتنی زور سے دھڑکاجیسے درد سے پھٹ جائے گا شاید اسی لیے سڑک پہ جاتا ہر شخص کسی نا کسی بیماری سے لڑتا نظر آیا۔
جب تک بیوپسی کی رپورٹ نہیں آئی ہم نے ابو کو لا علم رکھا پر ہمارے چہرے پہ سب عیاں تھا کیونکہ بہت با ہمت دکھنے والے ہم بہن بھائی والدین کے معاملے میں بہت کمزور ہیں اور بچپن سےلیکر اب تک جو الفاظ ہمارے لئے کسی آفت سے کم نہیں انکا مفہوم کچھ یوں ہے "امی ابو کی طبیعیت ٹھیک نہیں ہے" گو کسی بھی اولاد کی غرض و غایت "رَّبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّيَانِي صَغِيرًا" سے بڑھ کے کیا ہو سکتی ہے-
دوسری طرف اپنی سوانح حیات "گاڈ میڈ" مکمل کرنے والےہمارے ابو کو کیا علم تھا کےانکی زندگی سے جڑی سب سے دردناک "کینسر کہانی" ابھی باقی تھی اور درد بھی ایسا کے میری روح چھلنی ہو گئی، زندگی کا سارا کرب ایک لفظ میں سما گیا گو میری زندگی کا "ک" کرونا نہیں کینسر ہے۔
کبھی سوچا بھی نا تھاکے وہ بیماری جس کا ذکر ہمیشہ لوگوں سے سناتھا اتنی حولناک ہو گی اور اسکا علاج اس سے بھی زیادہ تکلیف دہ۔ ایک کے بعد ایک سرجری ، ہر بار ایک نیا امتحان ۔ ۔ ۔کینسر بلکل بھی ویسا نہیں جیسا فلموں اور ڈراموں میں دکھایا جاتا ہےاور نا ہی قبرستان دعا کیلئےجانا ۔ ۔ ۔ جب اپنے پیارے اللہ کو پیارے ہو جائیں۔ 
جوں جوں وقت گزرتا رہا کیموتھراپی کے اثرات بڑھتے گئے اورابو جیسے باذوق اور مصروف انسان نے ہر قسم کی "پڑھائی لکھائی" چھوڑ دی، نا اخبار پڑھنا نا ٹی وی دیکھنا بس اپنے کمرے میں رب کی رضا پہ راضی۔ابو کی یہی ہمت ہمارا کل اثاثہ اورحوصلہ ہے لیکن جب جب کوئی اور ہمیں حوصلہ دینے کی کوشش کرتا ہے تو نجانے کیوں آنکھیں نم ہو جاتی ہیں کے جس کو لگی ہے وہی جانے ۔
کیموتھراپی کے طویل سیشنز ہوں، ان گنت میڈیکل ٹیسٹ ہوں یا پھرتکلیف دہ سرجریز، ہم ہر ٹریٹمنٹ کے بعد ابو کی آنکھیں کھلنے کا انتظار کرتے اوراس دوران زندگی بھر کی ہربات ہماری آنکھوں کے سامنے آجاتی کہ امی ابو نے ہم چھ بہن بھائیوں کو کتنے مان پیار سے پالا ۔ اسی لیے ہم بہن بھائی دنیا کے کسی کونے میں تھے،ہمارا "ٹائم زون" ابو کی "ٹائم روٹین" سے جڑ چکا تھا۔حتاکہ جب ابو کا آخری وقت آیا تودور بسی اولاد کی بے وقت فون کالز بھی آنے لگیں ۔ ۔ ۔گو دل کو دل سے راہ ہوتی ہے پر اب تو ایک عرصہ ہوا ابو سے بات نہیں ہوئی۔ابو آپ تو چلے گئے پر ہماری زندگیوں سے جڑی   یہ"کینسر کہانی" ہمیں روز رولا دیتی ہے۔ ۔ ۔آپ سب سے التماس

ہے کہ میرے بابا  "مرحوم ڈاکٹرعبدالستارمنعم" کی بخشش کیلیےاول و آخر درود شریف کے ساتھ سورۃ فاتحہ اور تین مرتبہ سورۃ اخلاص پڑھ کےدعا کر دیجئے۔(جَزَاکَ اللَّهُ خَيْرًا)

Sunday 21 June 2020

Happy Father's Day

"زندگی کا "ب

میری زندگی کا "الف" امی اور "ب" بابا ہیں کیونکہ۔ ۔ ۔جہاں تک میری یاداشت ہے، مجھے بچپن سے ہی "امی" "ابو" کو محبت کرنے کی "بیماری" ہے ۔ وقت کے ساتھ یہ بیماری بڑھتی رہی اور آخر ہم "لا علاج" ہو گئے۔ کروناوائرس کی طرح پھیلی اس بیماری میں "درد اور ڈد" نہیں بلکہ "سکون اور سلامتی" ہے۔ اگر اس بیماری کی "دوا" اور "دعا" کا ذکر کریں تو جب جب امی ابو کو دیکھا آرام آیا اور "رَّبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّيَانِي صَغِيرًا" کو دھرایا۔
خدا گواہ ہے کے نا صرف ابو نے اپنے نصف درجن بچوں کی درجن بھر ضروریات اور خواہشات کو ہر دم پورا کیا بلکہ ہماری طرف آنے والی ہر ناگہانی آفت کوبھی اپنابنا لیا اور انکی"چیئر لفٹ"مانند زندگی وقت کے ساتھ ساتھ "ویل چیئر" کی محتاج ہو گئی۔
بہت دکھ ہوتا ہے ناں ! امی ابو کو اپنے سامنے بوڑھا ہوتے دیکھنا خاص کر ابو کو جو آپ کے"گاڈ میڈ" رول ماڈل ہوں !!! 
بچپن میں "آپکا" صبح صبح ہمیں سکول لے کر جانا نجانے کب "آپکو" صبح صبح ہسپتال لے کر جانے میں تبدیل ہو گیا پتا ہی نہیں لگا۔ کبھی آپ چلتے تھے تو ہم شان سے آپ کے کندھوں پر سوار ہو جاتے تھے مگر آج جب آپ ہمارے کندھے پر ہاتھ رکھ کر چلتے ہیں تو وہ شان مزید بڑھ جاتی ہے۔
ابو جی۔ ۔ ۔ہماری زندگی کی ہر کامیابی آپ سے جڑی ہے، ہم پردیس میں "آباد" تو ہیں پر "شاد" آپ سے ہیں۔ زندگی میں "دکھ" تو ہیں پر "سکھ" آپ سے ہیں۔ہمارا "ٹائم زون" جو بھی ہو "ٹائم روٹین" آپ سے جڑی ہے۔زندگی کے "حقوق" کا تو علم نہیں پر "فرائض" آپ نے سکھلائے۔ہم سب بہن بھائیوں پر "باپ" کی "چھاپ" ایسی ہے کے ہمارا ہر اچھا "اسلوب"ہر بار آپ سے "منصوب" ہے کیونکہ ہمیں ابھی "بڑا" نہیں بننا کہ ہمارے "بڑے" آپ ہیں۔ جب تک آپکی حفاظت میں ہیں ہماری زندگی میں بے فکری ہی بے فکری ہے کہ "ابو" ہیں ناں۔ ۔ ۔لیکن آج کل آپ کا ذکر جب بھی آتا ہے ہم سب کو ایک عجیب سا فکر چھو کر جاتا ہے۔ اللہ پاک آپ کو صحت والی لمبی ذندگی عطا فرمائیں(آمین)
"بابا سائیں" بچپن میں ریڈیو پہ آتی آپکی آوازکو ہم دور سے پہچان لیتے تھے اور اب عمر کے اس حصے میں بھی جب آپکے بلانے کی آواز آتی ہےتو ڈد سے دل ایک بار دھک دھک ضرورکرتا ہے۔اگرچہ آپ نے گاڑی کی ڈرائیونگ سیٹ ہمیں دے دی ہے پر ہماری ذندگی کی ڈرائیونگ سیٹ پر آپ ہی ہیں اور اس سفر میں "سپیڈو میڑ" سے زیادہ آپکے "اینگر و میٹر" پر نظر رہتی ہے لیکن آپ کا غصہ لمحوں جیسا اور پیار صدیوں کی طرح ہے۔ 
کہتے ہیں کے باپ کی موجودگی سورج کی طرح ہوتی ہے، دعا ہے کے ہمارے سورج کو لگے سارے گرہن جلدی سے اتریں اور ہمارے چھوٹے چھوٹے کمسن چاند ستاروں کو  دادا اور نانا کی صورت آپ کی  روشنی ہمیشہ ملتی رہے 

(آمین)

Monday 8 June 2020

فیصل آباد سے فاصلہ


میرے پیارے فیصل آباد ! کبھی کبھی دل شدت سے یہ خواہش کرتا ہے کے کاش۔ ۔ ۔اس شہر کا بھی کوئی دروزاہ ہوتا، کوئی قفل ہوا کرتا جس سے (اپنے)باہر جانے والے سارے راستوں کو مقفل کیا جا سکتا اور پھر کبھی مڑ کر پردیس کا سفر نہ ہوتا لیکن اب یہ سفر ہی زندگی ہے اور مسلسل سفر بھی ایسا کےپھر لوٹ کے ہم واپس یہاں نہ"رہ" سکے کیونکہ "عشق اجرت طلب نا تھا ورنہ ۔ ۔ ۔ہم تیرے در پے نوکری کرتے !"
بہت وقت نہیں گزرا بس ذرا پچھلی دہائی کی بات ہے جب اعلی تعلیم 😉 کے حصول کیلئے پہلی بار ہم نےاس شہر سے ہجرت کی
اورپھرحسیںن مستقبل کے سہانے خواب بنتے بنتے ہم اتنی دور نکل آئے کہ اس شہر سے جڑی خوابوں کی تار ٹوٹ سی گئی۔ ہمیں یاد ہے جب پردیس میں سب لڑکےاپنی "آزادی" کا جشن منا رہے ہوتے تو ایک کونے میں بیھٹے ہم "کب" "کہاں" اور "کیسے" گھر جانے کا پلان بنا رہے ہوتے۔ ہر سمسٹر کے آخیر میں لائلپور آنا ہماری سب سے بڑی "آزادی" اور نا آنا سب سے بڑی "بدنصیبی" ہوا کرتی تھی۔
آج اتنے سال گزرنے کے باجود بھی ہم کوئی اشارہ ، کوئی استعارہ، کوئی سہارا ڈھونڈتے ہیں کے پیارا "لائلپور" رہے نا "دور" اور عُموماً یہ دید ، عید پہ ہوتی ہے یا یوں کہئے کہ ہماری "عید" اس کی "دید" سے ہے۔
خدا گواہ ہے کے 2005 سے لیکر اب تک جب جب اس شہر سے واپس لوٹے ہیں روتے ہوئے ہی آئے ہیں۔
شاید آجکل کے دور میں آپ کو یہ سب تھوڑا 'میلو ڈرامیٹک' لگے 🤔 پر یہی سچ ہے ! مگر سچ تو یہ بھی ہے کے اکثر ہماری عمر کے لوگ اس شہر سے دور جانے اور دنیا گھومنے میں بڑا فخر محسوس کرتے ہیں لیکن ہم نے اب تک دنیا کے درجنوں جوبصورت شہر دیکھے مگر جو سکون اپنے "سوہنے" فیصل آباد میں ہے وہ کہیں نہیں ، اس شہرکا ہر رستہ دل سے نکلتا اسی لئےکبھی "گوگل میپس" کی ضرورت نہیں پڑی البتہ اب "گھنٹہ گھر" سے "گھر" تک کا سفر ٹریفک کی فراوانی کی وجہ سے ذرا طویل ہو گیا ہے اور اس رستے کے ہر موڑ پہ اب بھی ہمیں اپنے بچپن، لڑکپن اورجوانی کی ان گنت یادیں ملتی ہیں۔
درحقیقت یہاں بسنے والے ہر شخص پر ہمیں صحیح معنوں میں رشک آتا ہے اور ہم اکثر یہ سوچتے ہیں کے ہماری "جنم بھومی" ہونے کے باوجود لائلپور ہمارے حصے میں کیوں نا آسکا لیکن اس بات سے دل کو تسلی دے دیتے ہیں کے ہجرت کرنا سنت نبوی ﷺ ہے اسی لیے اس شہرکو "عبادت" کی طرح یاد رکھے ہوئے ہیں کبھی "قضا" نہیں ہونے دیتے، فرق بس اتنا پڑتا ہے کے اب جب واپس لوٹتے ہیں تو اپنے ہی شہر میں "فرض" نماز بھی "قصر" ہو جاتی ہے۔
دعا ہے کے کبھی وقت کی رفتار تھمے تو ہم اپنے آپ سے مل سکیں اور "فیصل آباد" سے "فاصلہ" مٹانے کا "فیصلہ" کریں کیونکہ آدھا ادھورا جینے سے بہتر ہے مکمل ہو کے مرنا !!!!

#LyallpurMyLove
#FaisalabadMyCity

Monday 1 June 2020

Lifelines; My Millionaire Story


I have grown up watching, playing and impersonating "Who Wants to be a Millionaire" and that too with siblings. The real excitement of the game was those tricky questions and use of three lifelines. For me, it was more like an IQ test. Later in my life while maintaining a balance between IQ & EQ, I realized that my real life’s LIFLINES are also three, some call them SISTERS but I owe them as real LIFELINES; without whom I am nothing and with them I am a Millionaire.
These are my bestest friends since childhood, magical-eyed talking machines, non-identical twins, sassy, spunky, melodic, crispy, honey bunch, sugar plum, older-wiser, younger-wonder, forever darling, homies and my strongest connection to Faisalabad.
I always thought that I’ll never find a right time to write about my 'Sakhiyan' and even if I find so, I would not be able to write the right feelings. Anyways, finally I am penning down My Millionaire Story, paying tribute to these lifelines available to me since my first breath.
Once upon a time, we were all together under one roof called HOME. A month passed, then a year and then a decade, before we could blink; life of this story has had changed. . .
-       From careless Childhood to careful Parenthood,
-       From home Fights to homing Flights,
-       From What’s up Whoop to Whatsapp Group,
-       From craze of Online Chats to Online Orders,
-       From Our home to Own home,
-       From rental VCRs to Netflix subscriptions,
-       From Dish TV to Dish making,
-       From Whispering on the back seats like kids to Shouting from the front seats on kids,
-       From mutual Money Box to Independent ATM cards,
-       From placing personal Diaries in Lock to Locking Smart Phones,
-       From sharing a bite of Cornetto Cones to sharing life’s Pros and Cons,
-       From Dippity-do Lifestyle to Do-it-yourself Lifestyle,
-       From buying old exam Papers to buying new Pampers,
-       From playing Ghar Ghar to serving Ghar Bhar,
-       From being Together for 24x7 to Get-togethers once in 24 weeks or 7 months(that's why I am waiting for you desperately) ,
-       From Hi-5 Life to 9 to 5 Life,
-       From Babies then to Beauties now,
-       From Weight Loss Campaigns to Weight Regains,
-       From giving funny nick-Names of siblings to suggesting Names for sibling’s new born (I can see the sheer resemblance of you in one of your kids and that feeling is great to see that "little you" growing up. Now there’s more of you to double my love),
-       From being Junaid ki 'behnay' to becoming Mama Bears,
-       From real time Ludo Haar to Ludo star.

In short, I can’t muster up enough courage to furnish every change we are experiencing. Because its a bit painful that now we cannot reboot our lives thus these changes make me smile and sob at the same time. But I’m so happy that I got to establish some life-goals with my lifelines whilst we were together. Supposedly, the only thing in common today is cracking Faisalabadi type jokes even if not that funny at times but still make one feel good.

Just like, I cannot differentiate the happiness of Bari Eid and Choti Eid, similarly be it 'Choti Behan' or 'Bari Behan', both are special source of Junaid’s jovial. You all are so 'close' and so 'far' at the same that even if I close my eyes, I can still see our HOME and ourselves running one room to another as we were (and still) too vibrant to stick to one place. Every now and then, my heart recalls our “very own” following endless memories...

-       Those Umra blessings, Gatwala picnics, Northern area trips and single-day Lahore leisures,
-       ‍Those epic covers of famous songs we made together,
-       All those home-made versions of famous games shows be it singing, bait bazi or Neelam Ghar(Let me tell you that all those childhood audio recording tapes are so hilarious)
-       ‍Our expertise of playing domestic Punjabi street games,
-       Watching uninterrupted movies together (religiously),
-       Finding neat pages for playing name-place- animal-thing,
-       Surrounding PC for video games especially Commandos and Who Wants to be a Millionaire,
-       When I used to be a test-bench for all your Ayuverdic beauty hacks,
-       Memorizing those heavy mathematical theorems and listening to each other’s ratta,
-       When one of you used to be our cricket umpire and was duty bound to fetch the lost ball from neighborhood,
-       Your selfless pocket money spending on me,
-       Those bike rides when your college van used to vanish,
-       Listening short summaries of Imran Series novel from you,
-       When you gals used to write my eid cards in 'baron baron wali likhiee',
-       Those photo-shoots with Kodak reel camera,
-       Presenting your books and important notes when I was too bad in my studies,
-       The way you used to save me from 'Ammi ki mar' and 'abu ki daant',
-       Stuff you shared with me, be it internet cards, TV remote or lil secrets,
-       Our "same day" exams, birthdays and marriages,
-       Then your 'Rukhsaties' one after one; the day I bid goodbye but could not bade bye to all your memories.

Thank you for every single thing you did/do for me. I hope you can still listen me in the crying cacophony of your kids that...
Your memories run faster than the speed of airborne COVID-19, I love you sosososososososo much and literally cannot function in life without you three 'lifelines'. You are three pieces of my heart and your faces I miss, day & night. May 'our' Millionaire Story blossoms further and we always celebrate these 'lifelines' together(amen)

JSK

Saturday 9 May 2020

Mother's Day

Happy Mothers Day
آپ سب کی طرح میری زندگی کا فلسفہ بھی "اول امی"۔ ۔ ۔"دوئم دنیا" کے گرد گھومتا ہے کیونکہ امی ہی میری ذندگی کا "الف" ہیں اور انکی ذات کےسامنے میرے لئےدنیا کی ہر چیز ثانوی حیثیت رکھتی ہے۔شاید اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ آدھابچپن امی سے دور گزرا،لڑکپن آیا تو گھر کو واپس آیا لیکن پھرذرا بڑا ہوا تو امی سے مزید دور جانا پڑا پہلے پڑھائی اورپھر جاب کیلیے اسطرح یہ "فاصلہ" "فلسفہ حیات" بنتا گیا۔

سکول کے دنوں میں جب امی کی بہت یاد آتی تو گھر کا نمبر ملاتا اور امی کی آواز سن کر فون رکھ دیتا کبھی ہمت ہی نا ہوئی کے امی کو کہہ سکوں کےپلیز مجھے آ کے لے جائیں۔ ۔ ۔ یہ دردبھرے لمحات میری زندگی کی سب سے پرانی یاداشتوں میں سے ایک ہیں ۔دوسری طرف امی کی پریت کے بھی کیا کہنے وہ جانتی تھیں کہ مجھے میٹھا بہت پسند ہے اسی لیے جب بھی گھر میں میٹھا بنتا تو وہ میرے لیے خاص رکھ لیتں اکثر اوقات تو کہیں آنے جانے کا پلان بھی میری واپسی تک موخر ہو جاتا جس پر سب بہن بھائ مجھے مورد الزام اور لاڈلا ٹھراتے۔ 

امی کا ذکر جب بھی آیا اپنے ساتھ فکر لایا کیونکہ کم ازکم اس دنیا کے اندر تو کہیں کوئی ایسی جگہ نہیں ہے جہاں مجھے امی کی یاد نہ آئی ہو ۔ ۔ ۔ بیت اللہ کا طواف ہو، مصر کابھرا بازار ہو، دنیا کا سب سے گہرا سمندر ہو یا دنیا کی سب سے بلند عمارت،یورپ کی سردی ہو یا افریقہ کی گرمی یا پھر پردیس میں زندگی اور موت کی کشکمش میں گزاری وہ بھیانک رات،مطلب ہر وہ جگہ جہاں "وہ" ساتھ نہیں تھیں میں سوچتا تھا کے امی اس وقت کیا کر رہی ہوں گی۔ پھرجب امی سے فون پہ بات ہوتی تو آواز اور آنسو یک جان سے ہو جاتےکیونکہ پردیس میں "ماں" اور "ماں جائے شہر" کی یاد کی ہچکی میں بھی قدرت نےاپنا ہی مزا رکھا ہے۔ بلآخر سوہنے رب سے یہ دوری دیکھی نا گئی اورآج امی "یہاں" ہیں اپنے سارے اچھے، مان بھرے آپشنز کو چھوڑ کے ہمارے"پردیس" کو "دیس" بنانے-
بچپن میں تو ہم امی کے ساتھ بازار جانے کی ضد کرتے ہی تھے لیکن آج بھی ضد کرتے ہیں کے امی ہمارے ساتھ بازار چلیں اورآخر بڑی مشکل سے وہ مان ہی جاتی ہیں۔۔۔ کیونکہ اچھا لگتا ہے کوئی بھی چیز خریدنے سے پہلے امی کو دیکھانا کہ ان کی چوائس پرفیکٹ ہے، نئے کپڑے پہن کے سب سے پہلے امی سے رائے لینا کہ کیسا لگ رہا ؟ فٹنگ تو ٹھیک ہے نا ؟ گوآئنیہ سے زیادہ "آئنیہ زندگی" پہ اعتبار کرنا۔گھر سے باہرجانا تو ہر بار امی کو بتا کے جانا اور واپس آ کے سب سے پہلے پوچھنا کے امی کہاں ہیں ؟ جب بھی امی کو ہیر کلر لگوانا ہو تو بھاگ کر آگے آجانا کہ ڈائی لگانے کے بہانے امی کو قریب سے دیکھ سکوں، گو ان کے چہرے پر آ کے ساری دنیا کے نظارے مکمل ہو جاتے ہیں۔بہرحال امی "ایک" اور دور دراز پھیلے ہم ان کے "چھ" دیوانے جن کی عشق خماری بس "امی ابو" تک ہی محدود ہے
"رَّبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّيَانِي صَغِيرًا" ۔ امی ہماری جنت تو تھیں ہی اب تو جنت(ہماری بیٹی) کی بھی جنت ہیں اس لئے گھر کےسب بچے آپ کو دادی،نانی نہیں بلکہ "امی" ہی بلاتے ہیں۔

اچھا لگتا ہےجب امی ipad پہ مصروف رہتی ہیں ، سو کے اٹھتی ہیں تو سب سے پہلے سائیڈ ٹیبل پہ پڑی اپنی عینک ڈھونڈتی ہیں اگرچہ اب امی کی نظر ذرا کمزور ہو گئی ہےمگر پھربھی سمندر پار ہمارے دلوں کے حال دیکھ سکتی ہیں اور بن بتائے سب جان لیتی ہیں۔ ہم نے بچپن سےآپ کو ڈھیر ساری میڈیسنز کھاتے دیکھااور وقت کے ساتھ انکی مقدار بڑھتی رہی۔ ہم بہن بھائی اکثر سوچتے ہیں کےگردش وقت نے ہمیں تو آپ کا ٹھیک سےخیال رکھنے کا موقع ہی نہیں دیا الٹا ہمیشہ اپنےآپ سے بے پرواہ آپ کو ہی ہم سب کا خیال رکھتے دیکھااور پھر ابو کی بیماری نےخدمت کا انداز ہی بدل دیا۔
امی کہنے کو تو بہت کچھ ہے، بہت سی ان گنت یادیں ہیں مگر اصل سچ یہ ہے کے آپ جیسی ماں پہ میرے جیسے ہزاروں پتر قربان۔ ۔ ۔ جیتی رہیں آپ اور میری عمر 
بھی آپ کو لگ جائے کیونکہ
 "جان تم پر نثار کرتا ہوں ۔ ۔ ۔ میں نہیں جانتا دعا کیا ہے 
  

#MothersDay2020

میرا پسندیدہ فکشنل کردار

(The Happy Prince)🤴 میرا پسندیدہ فکشنل کردار زندگی بھر ہم بے شمار "حقیقی" اور "فکشنل" کرداروں کا سامنا کرتے ہیں,کچھ ان...